Ticker

6/recent/ticker-posts

Header Ads Widget

Responsive Advertisement

ایک مجلس کی تین طلاق کا حکم

 https://youtu.be/HfD_GiZPmAU



سوال:

میں یہ جاننا چاہتا ہوں کہ کیا ایک مجلس میں تین بار طلاق بول دینے سے طلاق ہوجاتی ہے؟ یا تین بار ایک طلاق مانا جاتا ہے؟ مجھے طلاق کے متعلق بتائیں!

جواب نمبر: 67047

بسم الله الرحمن الرحيم

Fatwa ID: 673-129/D=8/1437 ایک مجلس میں تین مرتبہ طلاق کے الفاظ کہہ دینے سے تین طلاق واقع ہوجاتی ہے ۔ یہ حکم قرآن پاک ،احادیث نبویہ سے ثابت ہے۔ جمہور صحابہ تابعین کا اجماع ہے، اور تین طلاق ہونے پر ائمہ اربعہ کا اتفاق ہے۔ اس سلسلے میں ایک تفصیلی فتویٰ منسلک کیا جارہا ہے جس میں بالتفصیل دلائل ذکر کئے گئے ہیں ۔ از: زین الاسلام قاسمی الہ آبادی 02/08/1437 الجواب صحیح: فخر الاسلام عفی عنہ،وقار علی غفرلہ مفتیانِ دارالافتاء، دارالعلوم دیوبند ------------------------- باسمہ تعالی کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں : ایک شخص نے اپنی بیوی کو ایک ہی مرتبہ میں تین طلاقیں دے دیں، تو کیا اس صورت میں طلاقیں تین ہی واقع ہونگی یا ایک؟ جب کہ ایک فرقہ تین طلاقوں کو ایک ہی شمار کرتا ہے، لہذ آں حضور والا سے مأدبانہ درخواست ہے کہ صورت مسئولہ میں قرآن و حدیث کے مطابق تشفی بخش جواب تحریر فرماکر ممنون فرمائیں۔ بینوا توجروا المستفتی: محمد شاہنواز مظفر نگری ۱۵/رجب المرجب ۱۴۳۷ھ بسم اللہ الرحمن الرحیم الجواب وباللہ التوفیق حامداً و مصلیاً و مسلما ایک مجلس میں دی گئی تین طلاقیں تین ہی واقع ہوتی ہیں اور اس کے بعد بیوی مغلظہ بائنہ ہوکر شوہر پر حرام ہو جاتی ہے، حلالہ شرعی کے بغیر اس کا پہلے شوہر سے نکاح جائز نہیں ہوتا،امام ابو جعفر الطحاوی، علامہ نووی، حافظ ابن حجر عسقلانی، علامہ بدر الدین عینی،علامہ ابن رشد المالکی، علامہ ابن الہمام الحنفی، علامہ جلال الدین سیوطی، علامہ آلوسی الحنفی، قاضی محمد بن علی الشوکانی، مشہور غیر مقلد عالم مولانا شمس الحق اور اِن کے علاوہ بہت سے محقق علماء نے حضرات صحابہ کرام، تابعینِ عظام ، ائمہ اربعہ اور سلف و خلف کے جمہور علماء، مجتہدین، محدثین کا یہی مسلک ذکر کیا ہے۔ ( شرح معانی الآثار:۳/۵۵،کتاب الطلاق، بابُ الرجل یطلق امرأتہ ثلاثاً معاً، رقم : ۴۴۷۵، شرح النووي علی مسلم:۱۰/۷۰، کتاب الطلاق، باب طلاق الثلاث، ط: دار احیاء التراث العربي، بیروت، عمدة القاری:۲۰/۲۳۳، کتاب فضائل القرآن، باب من جوز طلاق الثلاث، ط: دار احیاء التراث العربي، بیروت، فتح الباري:۹/۳۶۲، کتاب فضائل القرآن، باب من جوز طلاق الثلاث، ط:دار المعرفة، بیروت، بدایة المجتہد: ۳/۸۴،کتاب الطلاق، الباب الأول، ط: دار الحدیث، القاہرة، فتح القدیر:۳/۴۶۹، کتاب الطلاق، ط: دار الفکر، عمدة الأثاث في حکم الطلقات الثلاث، ص: ۳۳۔۔۳۷ ) ٍ ان میں سے کسی کے نزدیک بھی ایک مجلس میں دی گئی تین طلاق ایک واقع نہیں ہوتی،یہی مسلک صحیح اور قرآن و حدیث کے صریح نصوص سے ثابت ہے،جو لوگ ایک مجلس میں دی گئی تین طلاق کو ایک قرار دیتے ہیں، اُن کا مسلک نہایت کمزور اور قرآن و حدیث کے صریح نصوص کے خلاف ہے، اس کے مطابق عمل کرنا شرعا جائز نہیں ہے، اُس مسلک پر عمل کرنے کی وجہ سے مطلقہ عورت حلال نہیں ہوتی ہے، وہ بدستور اپنے شوہر پر حرام رہتی ہے، لہذا صورت مسئولہ میں اگر ”شخص مذکور “ نے اپنی بیوی کو ایک ہی مرتبہ میں تین مرتبہ طلاق دے دی ہے، تو اُس پر تینوں طلاقیں واقع ہوگئیں اور وہ اپنے شوہر پر حرام ہوگئی ، اب دونوں کے مابین حلالہ شرعی کے بغیر دوبارہ نکاح کی کوئی صورت نہیں ہے۔ ذیل میں جمہور کے مسلک کے دلائل ذکر کیے جاتے ہیں: (۱) اللہ تعالی کا ارشاد ہے :فان طَلَّقَہَا، فَلا تَحِلُّ لَہ مِن بَعدُ حَتّٰی تَنکِحَ زَوجاً غَیرَہ ۔ اِس آیت سے پہلے”الطلاق مرتان الخ“ کا ذکر ہے، پوری آیت کا حاصل یہ ہے کہ اللہ تعالی فرمارہے ہیں کہ اگر دوطلاق دینے کے بعد فوری طور پر تیسری طلاق بھی دیدی، تو اب وہ عورت طلاق دینے والے مرد کے لیے اُس وقت تک حلال نہیں ہوگی جب تک کہ وہ شرعی ضابطے کے مطابق دوسرے مرد سے نکاح نہ کر لے اور پھر وہ دوسرا شخص نکاح و ہم بستری کے بعد اس کو طلاق نہ دیدے، تو عدت کے بعد یہ عورت پہلے شوہر کے لیے حلال ہوجائے گی۔ یہ آیت ایک مجلس میں دی گئی تین طلاق کے تین واقع ہونے کے بارے میں صریح ہے ،ا ِس لیے کہ اس آیت میں دو طلاق کے بعد اللہ تعالی نے لفظ ”فاء“ کے ذریعے تیسری طلاق کا ذکر کیا ہے، جس کا ظاہری اور صاف مطلب یہ کہ اگر کوئی شخص دو طلاق دینے کے فوری بعد ایک ہی مجلس میں تیسری بھی طلاق دیدے، تو تینوں طلاقیں واقع ہوجائیں گی، چنانچہ حضرت امام شافعی اِس آیت سے تین طلاق کے واقع ہونے پر استدلال کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ”فالقرآن واللّٰہ أعلم یدل علی أن من طلق زوجة لہ دخل بہا أو لم یدخل بہا ثلاثاً، لم تحل لہ حتی تنکح زوجا غیرہ“۔ (کتاب الأم: ۵/۱۹۶، أبواب متفرقة في النکاح والطلاق، طلاق التي لم یدخل بہا، ط: دار المعرفة، بیروت )” یعنی: قرآن کریم کا ظاہر اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ جس شخص نے اپنی بیوی کو تین طلاقیں دیدیں، خواہ اُس نے اس سے ہم بستری کی ہو یا نہ کی ہو، تو وہ عورت اُس شخص کے لیے حلال نہیں ہوگی جب تک کہ وہ کسی مرد سے نکاح نہ کر لے“ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ، امام بیہقی ، ابن حزم ظاہری، علامہ قسطلانی، علامہ عبد الحی لکھنوی اور غیر مقلد عالم مولانا ابراہیم صاحب سیالکوٹی نے بھی اِس آیت سے ایک مجلس میں تین طلاق کے تین واقع ہونے پر استدلال کیا ہے۔ ( السنن الکبری :۷/۵۴۴، باب ماجاء فيامضاء الطلاق الثلاث وان کن مجموعات، ط: دار الکتب العلمیة، بیروت، لبنان، المحلی بالآثار لابن حزم:۹/۳۹۴،کتاب الطلاق، ط: دار الفکر، بیروت۔عمدة الاثاث في حکم الطلقات الثلاث، ص: ۵۲، ۵۳، ط:مکتبہ صفدریہ، پاکستان،بحوالہ مجموعة الفتاوی:۴/۴۹۵، اخبار اہل حدیث، ۱۵ نومبر ۱۹۲۹ء، ارشاد الساری للقسطلانی:۸/۱۵۷،ط:مصر ) (۲) عن عائشة رضي اللّٰہ عنہا أن رجلاً طلق امرأتہ ثلاثاً، فتزوجت، فطلق، فسئل النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم أتحل للأول؟ قال: لا حتی یذوق عُسَیلتہا کما ذاق الأولُ۔ (البخاري،کتاب الطلاق، باب من أجاز طلاق الثلاث، رقم: ۵۲۶۱ ) حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ ایک شخص نے اپنی بیوی کو تین طلاقیں دیں ، اُس عورت نے دوسرے شخص سے نکاح کر لیا ، دوسرے شخص نے بھی اس کو طلاق دیدی ، تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا گیا کہ یہ عورت پہلے شخص کے لیے حلال ہوگئی ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : نہیں!جب تک پہلے شوہر کی طرح دوسرا شوہر بھی اس کا ذائقہ نہ چکھ لے ( یعنی صحبت نہ کر لے )۔ اِس حدیث میں” طَلَّقَ امرأتہ ثلاثاً “کے جملے سے یہ بات صراحتا معلوم ہوتی ہے کہ اِس حدیث میں تین طلاقیں اکھٹی اور ایک مجلس میں دینے کا ذکر ہے،، جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تینوں طلاق کے واقع ہونے کا فیصلہ فر مایا ہے، چنانچہ حافظ ابن حجر اور علامہ بدر الدین عینی رحمہما اللہ نے بھی اِس حدیث کا یہی مطلب بیان کیا ہے اور امام بخاری رحمة اللہ علیہ نے بھی” صحیح بخاری“ میں ، نیز امام بیہقی  نے ”السنن الکبری “میں ایک مجلس کی تین طلاق کے وقوع پر اسی حدیث سے استدلال کیا ہے، امام بخاری نے اِس حدیث پر یہ باب قائم کیا ہے، ”باب من أجاز طلاق الثلاث“ اور امام بیہقی نے یہ باب قائم کیا ہے: ”باب ما جاء في امضاء الطلاق الثلاث وان کن مجموعات“ ۔ (۳) عن عائشة رضي اللّٰہ عنہا أنہا سألت عن الرجل یتزوج المرأة، فیطلقہا ثلاثاً، فقالت: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم : لا تحلُّ للأول حتی یذوق الآخر عسیلتہا و تذوق عسیلتہ۔ (صحیح مسلم،با ب لا تحل المطلقة ثلاثاً حتی تنکح زوجاً غیرہ، رقم:۱۴۳۳، السنن الکبری للبیہقي،واللفظ لہ، کتاب الرجعة، باب نکاح المطلقة ثلاثاً، رقم: ۱۵۱۹۳) حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے سوال کیا گیا کہ کوئی شخص ایک عورت سے نکاح کرتا ہے ،اس کے بعد اُس کو تین طلاق دے دیتا ہے ؟ انہوں نے فرمایا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ وہ عورت اُس شخص کے لیے حلال نہیں ہے جب تک کہ دوسرا خاوند اُس کا ذائقہ نہ چکھ لے (صحبت نہ کرلے ) ، جس طرح کہ پہلا خاوند اُس کا ذائقہ چکھ چکا ہے ( صحبت کر چکا ہے) ۔ اس حدیث میں بھی ” ثلاثاً“ کا لفظ اِس بارے میں صریح ہے کہ اگر کوئی شخص ایک مجلس میں تین طلاق دیدے، تو تینوں طلاقیں واقع ہوکر بیوی مغلظہ بائنہ ہوجاتی ہے، یہی روایت دار قطنی میں اس طرح آئی ہے: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: اذا طلق الرجل امرأتہ ثلاثاً، لم تحل لہ حتی تنکح زوجاً غیرہ، ویذوق کل واحد منہما عسیلة صاحبہ۔ ( سنن الدار قطني، کتاب الطلاق، رقم: ۳۹۷۷ ) یعنی :آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جب مرد اپنی بیوی کو تین طلاق دیدے، تو وہ اُس کے لیے حلال نہیں ہوگی جب تک کہ دوسرے مرد سے نکاح کر کے دونوں ایک دوسرے کا ذائقہ نہ چکھ لیں۔ (۳) امام بخاری نے صحیح بخاری میں حضرت عویمر عجلانی رضی اللہ عنہ کے لعان کا واقعہ نقل کیا ہے، اُس واقعے میں ہے: ”کذبت علیہا یا رسول اللّٰہ ان أمسکتہا، فطلقہا ثلاثاًقبل أن یأمرہ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم “ یعنی: لعان کے بعد حضرت عویمر رضی اللہ عنہ نے حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا : یا رسول اللہ!اگر اب بھی میں اس عورت کو اپنے گھر میں رکھوں ، تو گویا میں نے اُس پر جھوٹا بہتان باندھا، یہ کہہ کر انھوں نے حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم دینے سے پہلے ہی تین طلاقیں دے دیں۔ علامہ کوثری فرماتے ہیں: کسی بھی روایت میں یہ مذکور نہیں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُن پر نکیر فرمائی ہو ۔ اس سے صاف معلوم ہوا کہ وہ تینوں طلاقیں واقع ہو گئیں، اور لوگوں نے بھی اس سے تین طلاق کا وقوع سمجھا ، اگر لوگوں کا سمجھنا غلط ہوتا ، تو حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم ضرور اُن کی اصلاح فرماتے اور لوگوں کو غلط فہمی میں نہ رہنے دیتے ، پوری امت نے اس روایت سے یہی سمجھا ہے ، حتی کہ علامہ ابن حزم نے بھی یہی مطلب سمجھا ہے ، چنانچہ انھوں نے فرمایا: ”انما طلقہا و ہو یقدر أنہا امرأتہ ولو لا وقوع الثلاث مجموعة لأنکر ذلک علیہ“۔ ( فقہی مقالات:۳/۱۹۱، بحوالہ الاشفاق علی أحکام الطلاق، ص: ۲۹) یعنی: اگر دفعة ایک مجلس میں تین طلاق کا شرعا اعتبار نہیں ہوتا اور تین طلاقیں ایک طلاق تصور کی جاتی ، تو اس سلسلے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم ضرور حکم ارشاد فرماتے اور کسی طرح خاموشی اختیار نہیں فرماتے، جب آپ نے اس پر سکوت اختیار کیا ، تو یہ اس بات کی یقینی دلیل ہے کہ گویا آپ نے تین طلاق کو نافذ قرار دیا، اس کی تایید ابو داوٴد میں حضرت سہل بن سعد رضی اللہ عنہ کی روایت سے بھی ہوتی ہے، جس کے الفاظ یہ ہیں: ” عن سہل بن سعد قال :فطلقہا ثلاث تطلیقات عند رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ، فأنفذہ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم الخ“۔ ( سنن أبی داوٴد، باب في اللعان، رقم: ۲۲۵۰ ) یعنی: ”حضرت عویمر رضی اللہ عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے اپنی بیوی کو تین طلاقیں دے دیں اور آپ نے اُن کو نافذ کردیا“۔ (۵) عن محمود بن لبید قال:أخبر رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم عن رجل طلق امرأتہ ثلاث تطلیقات جمیعاً، فقام غضباناً۔ ثم قال: أیلعب بکتاب اللّٰہ وأنا بین أظہرکم ،حتی قام رجل وقال: یا رسول اللّٰہ ألا أقتلہ؟ ( سنن النسائي، کتاب الطلاق، الثلاث المجموعة و مافیہ من التغلیظ، رقم: ۳۴۰۱ ) حضرت محمود بن لبید رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ اطلاع ملی کہ ایک شخص نے اپنی بیوی کو اکھٹی تین طلاقیں دے دیں، آپ اس پر غصے میں اٹھ کھڑے ہوئے ، پھر آپ نے ارشاد فرمایا کہ کیا میری موجودگی میں اللہ تعالی کی کتاب سے کھیلا جارہا ہے ؟ حتی کہ ایک شخص کھڑا ہوا اور اُس نے کہا کہ حضرت !کیا اس شخص کو قتل کردوں؟ اس حدیث کو حافظ ابن القیم، علامہ ماردینی، حافظ ابن کثیر اور حافظ ابن حجر نے سند کے اعتبار سے صحیح قرار دیا ہے (عمدة الاثاث، ص: ۲۷، بحوالہ زاد المعاد لابن القیم:۴/۵۲،الجوہر النقي للماردیني:۷/۳۲۳، نیل الاوطار:۶/۲۴۱، بلوغ المرام لابن حجر العسقلانی، ص:۲۲۴ ) اس حدیث میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا تین طلاق دینے پر ناراض ہونا اس بات کی واضح دلیل ہے کہ ایک مجلس میں تین طلاق دینے سے تین ہی طلاق واقع ہوتی ہیں، ورنہ آپ اس قدر ناراضگی کا اظہار نہیں فرماتے اور امام نسائی نے اس حدیث پر جو باب قائم کیا ہے، یعنی: ”الثلاث المجموعة و مافیہ من التغلیظ“ ، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ بھی اس حدیث سے یہی ثابت کرنا چاہ رہے ہیں کہ ایک مجلس کی تین طلاق تین ہی واقع ہوتی ہیں۔ (۶) طبرانی نے حضرت عبد اللہ ابن عمر رضی اللہ عنہما کا اپنی بیوی کو حالت حیض میں طلاق دینے کا تفصیلی واقعہ ذکر کیا ہے ، اُس واقعے کے آخر میں یہ الفاظ بھی ہیں:” یا رسول اللّٰہ ! لو طلقتہا ثلاثاً، کان لي أن أراجعہا ؟ قال: اذا بانت منک وکانت معصیة“ یعنی: ” حضرت عبد اللہ ابن عمر رضی اللہ عنہما نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا یا رسول اللہ! اگر میں اپنی بیوی کو تین طلاقیں دے دیتا ، تو کیا میرے لیے رجوع کا حق تھا ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : تب تو وہ تم سے بائنہ ہوجاتی اور یہ گناہ بھی ہوتا “ یہ حدیث بھی سند کے اعتبار سے صحیح ہے ، بعض لوگ اس حدیث کو سند کے اعتبار سے ضعیف قرار دیتے ہیں، وہ علامہ ہیثمی کے قول سے استدلال کرتے ہیں کہ علامہ ہیثمی نے ” مجمع الزوائد“ میں اس حدیث کے بارے میں لکھا ہے : ” رواہ الطبراني، وفیہ علي بن سعید الرازي، قال الدار قطني: لیس بذاک، و عظمہ غیرہ، و بقیة رجالہ ثقات “(مجمع الزوائد:۴/۳۳۶، کتاب الطلاق، باب طلاق السنة وکیف الطلاق، رقم: ۷۷۶۷، ط: مکتبة القدسي، القاہرة ) یعنی: علامہ طبرانی نے اس حدیث کو نقل کیا ہے اور اس کے ایک راوی ” علی بن سعید الرازی“ ہیں، جن کے بارے میں دار قطنی فرماتے ہیں: ” لیس بذاک“ ؛ البتہ دوسرے حضرات نے ان کی تعظیم و توقیر کی ہے اور ان کے علاوہ باقی رجال ثقہ ہیں“ لیکن دار قطنی نے علی بن سعی الرازی کے بارے میں جو ” لیس بذاک “ فرمایا ہے، اس کے بارے میں علامہ ذہبی ”میزان الاعتدال“ میں فرماتے ہیں: ”حافظ رحَّالٌ جوالٌ، قال الدار قطني: لیس بذاک، تفرد بأشیاء۔ قلت: سمع جبارة بن مغلس، وعبد الأعلی بن حماد۔ روي عنہ الطبراني والحسن بن رشیق والناس ۔ قال ابن یونس: کان یفہم و یحفظ “ ( میزان الاعتدال: ۳/۱۳۱، حرف العین، رقم: ۵۸۵۰، ط: دار المعرفة، بیروت ) یعنی: علی بن سعید الرازی حافظ الحدیث اور بہت زیادہ سفر کرنے والے تھے ۔ امام دار قطنی نے اُن کے بارے میں” لیس بذاک“ جو کہا ہے، یہ اُن کے تفردات میں سے ایک ہے ۔ میں یہ کہتا ہوں کہ انہوں نے ”جبارہ بن المغلس“ اور” عبد الاعلی بن حماد “ سے احادیث لی ہیں اور علامہ طبرانی اور حسن بن رشیق اور بہت سے لوگوں نے اُن سے احادیث روایت کی ہیں ۔ ابن یونس اُن کے بارے میں فرماتے ہیں کہ یہ حدیث سمجھتے اور اُس کو یاد کرلیا کرتے تھے “ علامہ ذہبی کے مذکورہ قول سے معلوم ہوا کہ” دار قطنی “ کے علاوہ کسی اور نے ان کے بارے میں کلام نہیں کیا ہے اور خود” دار قطنی“ نے بھی نرم الفاظ میں کلام کیا ہے اور حافظ ذہبی اُن کے اس کلام پر راضی نہیں ہیں اور اسماعیل بن یونس نے اُن کو ثقہ قرار دیا ہے اور حافظ ذہبی نے اُن کو” حافظ“ کہا ہے ، لہذا بعض لوگوں کا اِس راوی کی وجہ سے اس روایت کو رد کرنا صحیح نہیں ہے، ایک مجلس میں تین طلاق کے تین واقع ہونے پر اس حدیث سے استدلال کرنا بلا شبہہ صحیح ہے۔ (۷) عن نافع بن عجیر أن رکانة بن عبد یزید طلق امرأتہ ”سہیمة“ البتة، فأخبر النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم بذلک، وقال:واللّٰہ ما أردت الا واحدة ً، فقال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم : واللّٰہ ما أردتَ الا واحدةً ؟ فقال: رکانة: واللّٰہ ما أردتُ الا واحدة ، فردہا الیہ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ، فطلقہا الثانیة في زمان عمر والثانیة في زمان عثمان۔ (سنن أبي داوٴد، کتاب الطلاق، باب في البتة، رقم: ۲۲۰۶،وقال أبو داوٴد: ہذا أصح من حدیث ابن جریج أن رکانة طلق امرأتہ ثلاثاً؛ لأنہم أہلُ بیتہ، وہم أعلم بہ ) حضرت نافع بن عجیر فرماتے ہیں کہ حضرت رکانہ بن عبد یزید رضی اللہ عنہ نے اپنی بیوی ” سہیمہ“ کو ”بتہ“( تعلق قطع کرنے والی ) طلاق دے دی ، اُس کے بعد انھوں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو خبر دی اور آپ سے کہا:بخدا میں نے صرف ایک ہی طلاق کا ارداہ کیا ہے ، اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ کیا حقیت میں بخدا تو نے ایک ہی طلاق کا ارداہ کیا ہے ؟ حضرت رکانہ نے کہا : اللہ تعالی کی قسم میں نے صرف ایک ہی طلاق کا ارادہ کیا ہے ، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُن کی بیوی کو اُن کے ساتھ رہنے کی اجازت دے دی ، پھر حضرت رکانہ نے دوسری طلاق حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے عہد خالفت میں اور تیسری طلاق حضرت عثمان رضی اللہ کے عہد خلافت میں دی ۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ ایک مجلس میں تین طلاق دینا شرعا معتبر ہے ، اس لیے کہ اگر ایک مجلس کی تین طلاق تین واقع نہیں ہوتی، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت رکانہ کو قسم دے کر ایک طلاق دینے کی تصدیق کیوں فرماتے؟لفظ ”بتہ“ چونکہ تین کا بھی احتمال رکھتا ہے، یعنی اس لفظ کو بول کر تین طلاق کی بھی نیت کرنا صحیح ہے ، اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُن کو قسم دی ، اگر تین کے بعد رجوع کا حق ہوتا اور تین طلاق ایک سمجھی جاتی، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت رکانہ کو قسم نہیں دیتے؛ بلکہ ایسے ہی رجوع کا فیصلہ فرمادیتے۔ (۸) عن ابن عمر أن رجلا أتی عمر رضي اللّٰہ عنہ، فقال: اني طلقت امرأتي، یعني: البتة، قال: عصیت ربک، ففارقت امرأتک، فقال الرجل:فاِن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم أمر ابن عمر رضي اللّٰہ عنہما حین فارق امرأتہ أن یراجعہا، فقال لہ عمر رضي اللّٰہ عنہ: ان رسو ل اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم أمرہ أن یراجع امرأتہ لطلاق بقي لہ، وانہ لم یبق لک ما ترتجع بہ امرأتک۔ ( السنن الکبری للبیہقي، کتاب الخلع والطلاق، باب ما جاء في امضاء الطلاق الثلاث وان کن مجموعات، رقم: ۱۴۹۵۶) حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک شخص حضرت عمر رضی اللہ کے پاس آیا اور اُس نے کہا کہ میں نے حیض کی حالت میں اپنی بیوی کو بتی ( تعلق قطع کرنے والی اور یہاں مراد تین طلاق ہیں ) طلاق دے دی ہے ، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ تو نے اپنے پروردگار کی نافرمانی کی اور تیری بیوی تجھ سے بالکل الگ ہوگئی ،اُس شخص نے کہا کہ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی ا للہ عنہ کے ساتھ بھی بالکل ایساہی واقعہ پیش آیا تھا؛ مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تو اُن کو رجوع کا حق دیا تھا ، اس پر حضرت عمر رضی اللہ نے اُس سے فرمایاکہ بلا شبہہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عبد اللہ کو یہ حکم دیا تھا کہ وہ اپنی بیوی سے رجوع کر لیں اور اس کی وجہ یہ تھی کہ اُن کی طلاق باقی تھی اور تمہارے لیے تو اپنی بیوی سے رجوع کا حق نہیں ؛ اس لیے کہ تمہاری طلاق باقی نہیں ہے ۔ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ نے اپنی بیوی کو ایک طلاق دی تھی ، اس لیے اُن کے لیے رجوع کا حق محفوظ تھا اور مذکورہ شخص نے چونکہ اپنی بیوی کو تین طلاق دیدی تھی، اس لیے اس کے لیے رجوع کا حق ختم ہوگیا تھا، اسی لیے حضرت عمر رضی اللہ نے اُس سے فرمایا کہ تم رجوع نہیں کرسکتے ۔ اس واقعے سے معلوم ہوا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ اس حکم کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے ماخوذ سمجھتے تھے ، جیساکہ حدیث کے الفاظ سے یہ بات بالکل ظاہر ہے ۔ (۹) کان عبد اللّٰہ اذا سئل عن ذلک قال: لأحدہم: أما أنت ان طلقت امرأتک مرةً أو مرتین، فان رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم أمرني بہذا، وان کنت طلقتہا ثلاثاً، فقد حرمت علیک حتی تنکح زوجا غیرک، و عصیت اللّٰہ فیما أمرک من طلاق امرأتک ۔ ( صحیح مسلم ، کتاب الطلاق، باب تحریم طلاق الحائض بغیر رضاہا، رقم: ۱۴۷۱) حضرت عبد اللہ ابن عمر رضی اللہ عنہما سے جب کوئی شخص حیض کی حالت میں طلاق دینے سے متعلق معلوم کرتا، تو آپ اُس سے فرماتے کہ اگر تم نے اپنی بیوی کو ایک یا دو طلاقیں دی ہیں ، تو بیشک آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس صورت میں مجھے رجوع کا حکم دیا تھا اور اگر تم نے اپنی بیوی کو تین طلاقیں دی ہیں ، تو یقینا وہ تم پر حرام ہوگئی ہے جب تک کہ وہ تمہارے علاوہ کسی دوسرے شخص سے نکاح نہ کر لے اور اس طرح تم نے اپنی بیوی کو تین طلاق دے کر اللہ کی نافرمانی کی ہے ۔ اس روایت سے بھی معلوم ہوا کہ تین طلاق کے بعد کوئی گنجائش باقی نہیں رہتی اور عورت اپنے شوہر پر حرام ہوجاتی ہے ، اس روایت سے یہ بھی معلوم ہوا کہ ایک اور دو طلاق کے بعد رجوع کا حکم تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے ؛ لیکن تین طلاقوں کے بعد رجوع کا حکم آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے ثابت نہیں ہے ، ورنہ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما اس کا حوالہ ضرور دیتے اور اس کا خلاف فتوی دینے کی ہر گز جرء ت نہیں کرتے ۔ حضرت علی، حضرت حسن بن علی، حضرت عبد اللہ بن عباس، حضرت ابو ہریرہ، حضرت عبد اللہ بن مسعود ، حضرت عمران بن حصین، حضرت ابوموسی اشعری، حضرت عبد اللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہم اور امام جعفر بن محمد سے بھی صراحتا یہ بات ثابت ہے کہ ایک مجلس میں دی گئی تین طلاق تین ہی شمار ہونگی۔ ان سب حضرات کے اقوال کی تفصیل کے لیے دیکھیے: عمدة الاثاث فی حکم الطلقات الثلاث، ص: ۶۶۔۔۷۵۔ مذکورہ دلائل سے معلوم ہوا کہ ایک مجلس میں دی گئی تین طلاق تین ہی واقع ہوتی ہیں، قرآن و حدیث، حضرات صحابہ کرام ، تابعین عظام اور سلف و خلف کے جمہور علماء کا یہی متفقہ مسلک ہے، قرآن و حدیث اور حضرات صحابہ کرام کے اقوال تو تفصیل سے بیان کیے جاچکے ، اب چند اہم فقہاء کے اقوال بھی ملاحظہ فرمائیں: علامہ ابن الہمام فرماتے ہیں: ذہب جمہور الصحابة والتابعین ومن بعدہم من أئمة المسلمین الی أنہ یقع ثلاثاً ۔ ( فتح القدیر:۳/۴۶۹، کتاب الطلاق، ط: دار الفکر )”جمہور حضرات صحابہ کرام، تابعین اور ائمہ مسلمین کا یہی مسلک ہے کہ تین طلاقیں تین ہی واقع ہونگی“۔ علامہ بدر الدین عینی فرماتے ہیں: ”ومذہب جماہیر العلماء من التابعین ومن بعدہم منہم: الأوزاعي والنخعي والثوري، و أبو حنیفة وأصحابہ، ومالک و أصحابہ، والشافعي وأصحابہ، وأحمد و أصحابہ، و اسحاق و أبو ثور و أبو عبید وآخرون کثیرون علی أن من طلق امرأتہ ثلاثاً، وقعن؛ولکنہ یأثم“۔ ( عمدة القاری:۲۰/۲۳۳، کتاب فضائل القرآن، باب من جوز طلاق الثلاث، ط: دار احیاء التراث العربي، بیروت ) ”جمہور علماء جن میں تابعین، تبع تابعین، حضرت امام اوزاعی، امام نخعی، امام ثوری، امام ابوحنیفہ اور اُن کے اصحاب، امام مالک اور اُن کے اصحاب، امام شافعی اور اُن کے اصحاب، امام احمد اور اُن کے اصحاب، امام اسحاق بن راہویہ، امام ابو ثور، امام ابو عبیدہ وغیرہ کا یہی مسلک ہے کہ جو شخص اپنی بیوی کو تین طلاق دیدے، تو تینوں طلاقیں واقع ہو جائیں گی؛ البتہ اس کی وجہ سے وہ گنہگار ہوگا“لہذا صورت مسئولہ میں اگر شخص مذکور نے اپنی بیوی کو ایک مرتبہ میں تین طلاق دیدی ہے، تو اُس کی بیوی پر تینوں طلاقیں واقع ہوگئیں اور بیوی مغلظہ بائنہ ہوگئی،جیساکہ اس کے دلائل تفصیل سے ماقبل میں بیان کر دیے گئے، جو لوگ تین طلاق کو ایک شمار کرتے ہیں، اُن کا قول قطعا غلط ہے۔ فقط واللہ تعالی اعلم بالصواب کتبہ محمد مصعب عفی عنہ دار الافتاء، دارالعلوم/ دیوبند ۲۲/۷/۱۴۳۷ھ الجواب صحیح: زین الاسلام قاسمی الٰہ آبادی، فخر الاسلام عفی عنہ


واللہ تعالیٰ اعلم


ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے