دوسروں پر تنقید کرنے والوں سے ایک عاجزانہ درخواست
بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
قارئینِ کرام! بڑے دکھ کے ساتھ یہ لکھنے پر مجبور ہوا کہ کچھ نا سمجھ لوگوں نے خود کو دین کا ٹھیکہ دار سمجھ رکھا ہے نہ حکمت ہے ، نہ دانائی ، نہ دور اندیشی، بس دوسرے پر تنقید کرنے کو راہِ نجات سمجھتے ہیں حالانکہ خود نہ صحیح طریقے پر اسلام کی روح سے واقف ہوتے اور نہ ہی ان کے اندر صحیح دینداری ہوتی ہے اس لیے کہ دیندار اور سمجھدار آدمی بیجا تنقید ، طعن و تشنیع دوسروں کی بے عزتی کرنے اور ان کے عیوب کی تشہیر کرنے جیسے بڑے گناہوں میں اپنے آپ کو کیونکر دھکیل سکتا ہے ؟ اور پھر نادان یہ بھی توسمجھتے ہیں کہ ہم اس طرح دین کی تبلیغ کررہے ہیں کوئی ان سے پوچھے کیا دین پر آپ نے خود عمل کیا؟ کیا اسلام میں دوسروں کو بری بات سے روکنے کا یہی طریقہ ہے کہ عوامی سطح پر دوسروں کو تنقید کا نشانہ بنایا جائے اور بدنام کیا جائے ۔ان مبلغ صاحب کو یہ بھی تو دیکھنا چاہیے کہ مخاطب کون ہے؟ کیا ان کا مزاج ہے؟ کیا اس سطح کے تمام لوگوں کے ساتھ آپ کا یہی رویہ ہے یا صرف انہیں کو سمجھانا آپ کا مقصد ہے؟ کیا آپ کی بات سے وہ دین کے قریب آئیں گے یا دور چلے جائیں گے؟کیا آپ انہیں ایک خاص موقع پر نشانہ بنارہے ہو یا اس سے پہلے بھی کبھی آپ نے انہیں سمجھایا ہے؟ کیا سمجھانے کے لیے آپ ہی ان کے زیادہ قریب ہیں یا دین کی صحیح سمجھ رکھنے والے بڑے لوگ بھی ان کے رابطے میں ہیں؟ کیا یہ آدمی میری تبلیغ سے یہاں تک پہونچا ہے یا بڑے بزرگوں کی محنت ہے؟پھر ہماری کیا مجال اور ہمت ہے کہ ہم ان حکیموں دور اندیشوں کی دانائی کے سامنے لوگوں کو تذبذب میں ڈالنے والی دین کے قریب لگے لوگوں میں الجھن پیدا کرنے والی اور جو ابھی دین سے بہت زیادہ واقف نہیں ہیں بلکہ ایک دوسری دنیا سے نکل کر آئے ہیں ان کی نظروں میں اسلام کی شبیہ پر بد نما داغ لگانے والی تبلیغ کے نام پر تنقید پر مشتمل تحریر لکھیں یا تقریر کریں؟ میری سمجھ میں نہیں آتا کہ ایک صحیح دیندار مسلمان ایسا کیسے کرسکتا ہے؟ اس طرح کی حرکت کرنے والوں سے میں پوچھتا ہوں کہ کیا آپ کے اس رویے سے ایک بھی آدمی دین کے قریب آیا ہے؟
دوستو! مشہور مقولہ ہے ۔۔اول الناس اول ناس۔۔ سب سے پہلا انسان سب سے پہلے بھولنے والا ہے یعنی حضرت آدم علیہ السلام جو سب سے پہلے انسان ہیں انہیں سے سب سے پہلے بھول چوک ہوئی۔پھر انہوں نے توبہ کی تو رب ذوالجلال نے توبہ کو قبول فرمایا۔ پیارے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث کا مفہوم ہے کہ ہر آدمی گناہ گار ہے لیکن بہترین گناہ گار وہ ہے جو توبہ کر لے۔ ایک دوسری حدیث میں ہے ۔۔التائب من الذنب کمن لا ذنب لہ۔۔۔۔گناہوں سے توبہ کر نے والا ایسا ہےجیساکہ اس نے گناہ کیا ہی نہیں ۔
دوستو! میری یہ تحریر ان لوگوں کے بارے میں ہے جو محترمہ ثناخان اور ان کے شوہر مولانا محمد انس صاحب کو سوشل میڈیا پر اپنی تحریر وتقریر کے ذریعے طعن و تشنیع اور تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں ۔میرا مقصد ہر گز یہ نہیں کہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کرنے میں کمی کرو یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث پر عمل میں کوتاہی کرو جس حدیث کا مفہوم ہے کہ ۔۔برائی کو روکو جس طرح بھی ممکن ہو ہاتھ سے یا زبان سے یا آخری درجہ یہ ہے کہ اس کو دل میں برا سمجھو۔۔
میرا مقصد یہ ہے کہ دین کی دعوت اچھے انداز میں ہو۔
ہم سب جانتے ہیں کہ کتنے ہمارے مسلمان بھائی بہن ہیں جو فلمیں بنا رہے ہیں ناچ گانوں کی مجلسیں سجا رہے ہیں ۔کیا ہم نے ان کو حقیقی زندگی سے روشناس کرانے اور اس بے فائدہ غلاظت کی زندگی سے نکالنے کی کبھی ذرہ برابر بھی کوئی کوشش کی ؟ کیا کبھی ہم نے اپنے ان بھائیوں کو سمجھایا ہے جو اس زندگی کی چمک دمک رنگ رلیوں اور پل بھر میں ختم ہو جانے والے مال و دولت عزت و شہرت کے پیچھے اپنے آپ کو دیوانہ بنا چکے ہیں اور اللہ تعالی کے ارشاد ۔۔وماخلقت الجن والانس الا لیعبدون۔۔اور اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ان تمام ارشادات کو بھلا کر جو گانے بجانے کی قباحت اور ممانعت کو بیان کرتے ہیں ان سب کو پسِ پشت ڈال کر اپنی ایک الگ دنیا بسائے ہوئے ہیں۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ہم ان کو اس گندگی کی دنیا سے نکالنے کے لیے محنت کرتے ۔لیکن بجائے اس کے ہم کیا کررہے ہیں ایک لڑکی جس کے دل میں یقینا دین کی قدر بیٹھ گئی ہے جس کی دلیل یہ ہے کہ اس نے اس چمک دمک اور شہرت کی زندگی کو چھوڑ کر اللہ سے توبہ کی ۔ ہمیں سوچنا چاہیے کہ جب محترمہ نے اللہ کی رضا کی خاطر اپنے دین کے لیے اتنا بڑا فیصلہ کرلیا تو یقینا اللہ تعالی کی توفیق سے وہ ایک دن مکمل دین کے مطابق اپنی زندگی کو ضرور بنالیں گی ۔
لیکن ہم ہیں کہ ان کے کے ہر قول و فعل پر نظر رکھے ہوئے ہیں اور ان کو عوامی سطح پر بدنام کرنے کی ناپاک کوشش کر رہے ہیں اور ان کو تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں ۔
ارے بھائی جب اس نے دین کی خاطر پوری شوبز کی زندگی کو ٹھکرا دیا تو کیا اب وہ ان چھوٹی چھوٹی چیزوں میں پڑ کر اپنے دین کو خراب کرےگی ۔ان کو سمجھانے والے بتانے والے بڑے حضرات موجود ہیں خود ان کے شوہر ایک عالمِ دین ہیں وہ بڑی حکمت و دانائی سے ان کو سمجھا رہے ہیں اسی کا نتیجہ ہے کہ انہوں نے بفضل اللہ ایک مسلمان کو گندگی سے نکال کر دونوں جہانوں میں خیر کا باعث بننے والی زندگی سے روشناس کرایا ۔
دوستو! میری آپ سے عاجزانہ درخواست ہے کہ ایسی تحریر وتقریر سے گریز کریں جس سے دین کا فائدہ کم اور نقصان زیادہ ہوتا ہو۔آپ کو معلوم ہونا چاہیے کہ ثنا خان کو اس طرح کی تحریر سے اس قدر تکلیف ہوئی ہے کہ وہ یہ کہنے پر مجبور ہوگئی شاید میں نے غلطی کی ہے اس زندگی کو چھوڑ کر کیوں کہ جب میں چاہے کچھ بھی کروں کوئی نہیں ٹوکتا تھا اور اب ایک دم سے سب مجھے تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں ۔
دوستو ! ہمیں سوچنا چاہیے کہ ہماری بد اخلاقی سے خدانخواستہ کوئی اسلام سے بد ظن ہو جائے تو اس کا وبال کس پر ہوگا ۔
پیغمبرِ اسلام صلی اللہ علیہ وسلم جن کے بارے میں اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا ۔لقد کان لکم فی رسول اللہ اسوۃ حسنۃ۔۔کہ تمہارے لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم بہترین نمونہ ہیں ۔کیا ہم نے کبھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق پر غور کیا کہ اسلام سے بغض و عناد رکھنے والےکفار و مشرکین اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دشمنی میں جلے بھنے لوگ بھی آپ کے اخلاق و عادات سے حد درجہ متأثر ہوتے اور ان کے پتھر دل موم ہوجاتے تھے اور صرف یہی نہیں بلکہ وہ فورا توبہ کرتے اور پکار اٹھتے ۔اشھد ان لا الہ الا اللہ و اشھد ان محمدا عبدہ ورسولہ۔ اور آج ہم ہیں کے دعوے تو خوب کرتے پھرتے ہیں کہ نبی کے امتی ہیں نبی کے عاشق ہیں لیکن کیا کبھی اپنے اخلاق پر بھی غور کیا ہے؟ ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے نام لیوا ہیں لیکن اخلاق اتنے گرے ہوئے کہ کوئی غیر مسلم تو اسلام کیا لائے بلکہ جو مسلمان ہے اور دین کے قریب ہونا چاھتا ھے وہ بھی بدظن ہو جاتاہے ۔خدا کے واسطے اپنے اندر اچھے اخلاق پیدا کی جیے اگر کسی کو سکھ نہیں پہونچا سکتے تو دکھ بھی مت پہونچائیے اخیر میں ان تمام لوگوں سے جو دین کے قریب ہونا جاھتے ہیں اور خاص طور پر ثناخان سے درخواست ہے کہ کسی بھی تنقیدانہ تحریر و تقریر پر توجے نہ دیں خود کو مایوس نہ کریں اسلام کو ایسے لوگوں سے مت جانچیں جو نام کے مسلمان ہیں بلکہ قرآن و حدیث میں غور کریں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کو دیکھیں کہ کس طرح انھیں تنقید طعن و تشنیع کا نشانہ بنایا گیا لیکن وہ حق پر ڈٹے رہے اور کامیابی سے ہمکنار ہوئے کیونکہ ہمیشہ حق کی جیت ہوتی ہے آپ نے بھی یقینا حق کا راستہ اختیار کیا ہے اس لیے اللہ کی رضا کے لیے قدم مضبوط رکھیے ہماری دعا ہے کہ اللہ تعالی آپ کو استطاعت عطا کرے ۔ آمین
احقر: عامر گلشیر
Contact us....
aamirbingulsherali5@gmail.com
0 تبصرے