Ticker

6/recent/ticker-posts

Header Ads Widget

Responsive Advertisement

تعزیتی پیغام بر وفات امیر الہند حضرت اقدس مولانا قاری سید محمد عثمان صاحب منصورپوری رحمہ اللہ منجانب حافظ گل شیر علی صاحب مہتمم مدرسہ جامعہ اشرف العلوم نگلہ بڈھانہ مظفر نگر یوپی






 بسم اللہ الرحمن الرحیم 

﴿ تعزیتی پیغام ﴾

" موت اس کی ہے کرے جس کا زمانہ افسوس "

    گرامیِ قدر ، عالی مرتبت،  باوقار فرزندانِ امیر الہند ؒ حضرت مولانا مفتی سید محمد سلمان صاحب منصورپوری و حضرت مولانا مفتی سید محمد عفان صاحب منصورپوری  زادکما اللہ علما وشرفا 

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ 

قحط الرجال کے  اس  تشویشناک عہد میں یکے بعد دیگرے تھوڑے تھوڑے وقفے سے ایسے اصحابِ علم کا رخصت ہوجانا جن کی با برکت و با سعادت موجودگی،  ہر قسم کے افکار و مسائل سے پریشان حال اور دینی و دنیاوی رہنمائی کی متلاشی امتِ مرحومہ کے لیے مینارۂ نور و ہدایت کی حیثیت رکھتی ہے ، حساس قلوب کے لیے ایک لمحۂ فکریہ ہے ۔

یوں تو قانونِ قدرت ﴿ کل نفس ذائقۃ الموت ﴾ کا مصداق ہونے سے کسی بھی ذی روح کو مفر نہیں ، لیکن اس دنیا میں کچھ ہستیاں ایسی بھی ہوتی ہیں جن کی زندگی قوم و ملت کی امانت ہوجاتی ہیں اور ان کی رحلت میدانِ علم و فن اور سماجی و معاشرتی زندگی میں نا قابلِ تلافی نقصان کا باعث بن جاتی ہے ۔ انہیں مقبول و معتبر اور نادر شخصیات میں سے آپ کے والد گرامی ہم سب کے مشفق و مربی ، بلند پایہ عالمِ دین و محدث اور شیخ الاسلام حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی ؒ کے داماد ، دارالعلوم دیوبند کے سابق نائب مہتمم و استاذِ حدیث ، جمعیۃ علماء ھند کے صدرِ باوقار اور کل ہند مجلسِ تحفظ ختمِ نبوت کے ناظم امیر الہند حضرت اقدس مولانا قاری سید محمد عثمان صاحب منصورپوری رحمہ اللہ تھے ۔

جب ۸ / شوال ۱۴۴۲ھ بوقت نمازِ جمعہ یہ المناک اطلاع ملی کہ حضرت امیر الہندؒ کچھ دن علالت کے بعد داعئِ اجل کو لبیک کہتے ہوئے اپنے خالقِ حقیقی سے جا ملے تو اس حادثۂ فاجعہ کی شدتِ غم و الم نے قلب و دماغ میں ایک فکری ارتعاش پیدا کردیا اور یہ خیال آیا کہ :

 "ایک چراغ اور بجھا اور بڑھی تاریکی "

 ( انا للہ و انا الیہ راجعون ۔ ان اللہ ما اخذ ولہ ما اعطی وکل شیء عندہ باجل مسمی فلتصبر ولتحتسب  )

لیکن یہ بات قابلِ طمانیت ہے کہ قاری صاحب ؒ نے اپنی پوری زندگی انتہائی پاکیزگی اور دیانت و امانت کے ساتھ نہ صرف یہ کہ علومِ دینیہ خدمت کی اور امتِ مسلمہ کی رہنمائی فرمائی بلکہ پوری انسانیت کی صلاح و فلاح کے لیے کام کیا اور متعلقین و محبین کے لیے عمدہ یادیں چھوڑ کر اس دنیا کو الوداع کہا 

بقولِ شخصے  ؂

کلیوں کو میں سینے کا لہو دے کے چلا ہوں 

صدیوں مجھے گلشن کی فضا یاد کرے گی 

حضرت امیر الہند ؒ کو اللہ تعالی نے حسن و جمال ، فضل وکمال،  شرافت و نجابت اور تقوی و طہارت کے ساتھ ساتھ حسنِ تربیت اور نظم و نسق کی اعلی صلاحیت عطا فرمائی تھی۔ طالبانِ  علوم کے ساتھ ہمدردی و غم گساری اور فریاد رسی آپ کا خصوصی امتیاز تھا جبکہ اصول پسندی آپ کا طبعی وصف تھا آپ فصیح اللسان شیریں بیان تھے آپ کی شخصیت اس شعر کی تفسیر تھی ؂

نرم دم گفتگو ، گرم دم جستجو 

رزم ہو یا بزم ہو پاک دل پاکباز 

امیر الہند حضرت قاری  صاحب ؒ کی زندگی محتاجِ تعارف نہیں آپ علم و عمل اخلاص و للّہیت کے پیکر تھے دور اندیشی و فہم و فراست ، خوش اخلاقی و خوش مزاجی اور ضیافت و میزبانی آپ کی ذات کا ایسا عنصر تھا کہ پہلی مرتبہ ہی میں  آپ سے ملاقات کا شرف حاصل کرنے والا شخص اس کا بخوبی اندازہ لگا لیتا تھا ۔ آپ انتہائی معاملہ فہم اور متواضع  تھے،  گویا ﴿ من تواضع للہ رفعہ اللہ ﴾ کی عملی تفسیر تھے 

لیکن آج بڑے دردوغم کے ساتھ کہنا پڑتا ہے ؂

ایک سورج تھا کے تاروں کے گھرانے سے اٹھا 

آنکھ حیران ہے کیا شخص زمانے سے اٹھا 

آئے عُشّاق، گئے وعدۂ فردا لے کر

اب اُنھیں ڈھُونڈ چراغِ رُخِ زیبا لے کر

حضرت امیر الہند ؒ کی رحلت کا صدمہ صرف ان کے خانوادے،  دارالعلوم دیوبند یا جمعیۃ علماء ھند کا تنہا صدمہ نہیں بلکہ تمام علماءِ دیوبند اور ملی تنظیموں کا اجتماعی صدمہ ہے 

نیز یہ بندۂ ناچیز بھی حضرت امیر الہند ؒ کی ان مشفقانہ و متواضعانہ ملاقاتوں کے شرف سے محروم ہوگیا ہے جن کے ذریعے احقر بارہا حضرت امیر الہند ؒ کی خدمتِ اقدس میں حاضر ہوکر ان کے قیمتی مشوروں سے مستفید ہوتا رہاہے 

صرف یہی نہیں بلکہ حضرت امیر الہند ؒ کی بھی ہم پر ہمیشہ  یہ کرم فرمائی رہی ہے کہ ہماری حقیر درخواست  کو وہ شرفِ قبولیت سے نوازتے اور مدرسےکے اجلاس میں تشریف لاکر عوام و خواص کو اپنے نصائح غالیہ سے مستفیض فرماتے ، یہ حضرت ؒ کی اعلی ظرفی اور تواضع کا ہم پر فضل تھا ۔

اس غم بھرے حادثے میں ہم خدامِ جامعہ خود تعزیت کے مستحق ہونے کے ساتھ ساتھ آپ فرزندانِ امیر الہند ؒ  کو اور آپ کے اہلِ خانہ کو خصوصا اور  تمام متعلقین و محبین کو عموما تعزیت پیش کرتے ہیں ۔

اللہ تعالی حضرت قاری صاحب ؒ کے درجات کو بلند فرمائے ، پسماندگان کو صبرِ جمیل عطا فرمائے اور امتِ مسلمہ کو آپ کا نعم البدل عطا فرمائے( آمین )

                                والسلام 

                                احقر گل شیر علی 

                            مہتمم مدرسہ ہذا 

۱۶ / شوال ۱۴۴۲ھ مطابق ۲۹ / مئی ۲۰۲۱ء سنیچر 








ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے