بچپن پیارا
گزرتا تھا بچپن وہ کتنا پیارا
کہ لگتا تھا جگ ہم کو اپنا پیارا
تقابل کھلونوں میں جب ہم کراتے
تو کہتے یہی سب ہے اپنا پیارا
جو کچھ والدیں جب بھی تقسیم کرتے
بہن بھائیوں کا وہ جھگڑا پیارا
کبھی ناؤ کاغز کی پانی میں چلتی
جہازوں کا کاغز کے اڑنا پیارا
سبق رات میں جب بھی ہم یاد کرتے
فجر میں سناتے تو لگتا پیارا
وہ اردو کا پڑھنا قواعد کا رٹنا
وہ کاپی نقل کی وہ املا پیارا
فجر سے ہی اٹھنا دعا مل کے کر نا
خوشی ناشے کی وہ کھانا پیارا
وہ مخلص مکرم وہ رضوان ورضواں
ذکاء و کلام اور عرفاں پیارا
پلنگ توڑ پھوندی کے مشہور برفی
پکوڑوں کو حشمت بھی تلتا پیارا
جمعرات باغوں میں جاتے کبھی ہم
کبھی وقت جوہڑ پہ کٹتا پیارا
شروع سے ہی چل کر بہت میچ جیتے
تھا میرا و ذوالقر کا جمنا پیا را
جو پاری ختم پر تھا پانی کا پینا
مزہ اس میں ہوتا تھا کتنا پیارا
وہ چھکے وہ چوکے وہ بالنگ وہ فلڑنگ
وہ اڑکر کبھی کیچ لینا پیارا
تھا پردے پہ آٓنا برا کام لیکن
جنید اور عرفاں کا جزبہ پیارا
یہ بچپن کی باتیں تو سب چھوڑ عامرؔ
بنا اب تو مستقبل اپنا پیارا
از : عامرؔ بن گل شیر علی
١٠/ ذی الحجہ ١٤٣٩ھ
0 تبصرے