غزل
کسی کی یاد میں تڑپے جو دل اس کی دوا کیا یے
نہ چاہنے والوں کو چاہے جو دل اس کی سزا کیا ہے
کبھی ملتا ہے موقع دل سے باتوں کا بہے چشمہ
نہیں وہ غور دیتے ہیں کبھی اسکی وجہ کیا ہے
وہ کہتے ہیں کبھی ملنا میں کہتا ہوں ابھی ملنا
وہ ظالم بس گئے دل میں مری اس میں خطا کیا ہے
عذاب اس رب کا ہے یا آٓزمائش ہے کیا سمجھوں
انابت ہو نہ گر اس کی طرف تو پھر مزہ کیا ہے
سفر رہتا ہے جاری ہر گھڑی بحرِ تخیل میں
نمازوں میں رخِ جانا ہے پیش آٓخر نشہ کیا ہے
مؤثر اتنے نکلے وہ کہ دل میں ہو گئے راسخ
سکوں بلکل نہیں مجھکو محبت یہ بلا کیا ہے
طبیعت ہو مخالف تو بیانِ درد لا حاصل
محبت بھی نہ سمجھے جو تو پھر اس کی وفا کیا ہے
یہ رب سے عشق ہو تو سر فرازی ہو جہانوں میں
ہوس کی مان کر عامؔر کہاں کس کو ملا کیا ہے
از: عامر بن گل شیر علی
١٢ــ ربیع الثانی ١٤٤٠ھ ٢٢ــ دسمبر ٢٠١٨ء
0 تبصرے