یہ آگِ نفرت لگائی کس نے ! جو نگلہ گاؤں بھی جل رہا ہے
رہے تھے مل کر ہوا ہے اب کیا؟ کہ ہر کو ئی اب تو لڑ رہا ہے
ہیں لوگ کیسے!نہ خوش کسی سے ، نہ غم کسی کے بھی غم کا ان کو
تباہی ا پنی ہو چاہے جتنی مگر یہ آ پس میں لڑ رہا ہے
نہ فکرِدنیا و آخرت ہے زہر ہے ہاتھوں میں فون سب کے
ہے نو جواں طبقہ مست اتنا کہ وقت اچھا ہی کٹ رہا ہے
نہ مثلِ پانی بہاؤخوں کو جوان کتنے ہی چل بسے ہیں
دلوں میں وحشت بسی ہے ایسی کہ بھائی بھای سے ڈر رہا ہے
جو تنہا تنہا چلی تھی ند یاں وہ دشتِ نگلہ سے گزری آخر
مٹا کے شکوے چلی وہ ایسی کہ آب ان کا بھی مل رہا ہے
یہ فرقہ بندی رہیں گی کب تک مٹا دو نفرت کو اہلِ نگلہ
ہے کامیابی اسی میں سب کی یہ حکم قرآں بھی کر رہا ہے
امیر صالح بناؤ اپنا ترقی گر چاہتے ہو ہر جا
اسی کی مانو حسد کو چھوڑو کہ عرض عامر یہ کر رہا ہے
Aamir Gulsher created 2014
1 تبصرے
ماشااللہ
جواب دیںحذف کریں